کرونا وائرس کی وبا نے پاکستان میں جاری چین پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں پر بہت منفی اثر ڈالا ہے۔ یہ منصوبے جو پہلے ہی خراب معاشی حالات اور سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے سست روی کا شکار تھے اب کھٹائی میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
سال 21-2020 کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں پاکستان نے سی پیک سے متعلقہ پہلے سے جاری 17 سکیموں کے لیے محض 24 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ان سکیموں میں زیادہ تر سڑکوں سے متعلق ہیں۔
بلوچستان میں ژوب کچلاک سڑک کے منصوبے کے بعد سال 21-2020 کا سب سے بڑا منصوبہ پاکستان ریلوے کی موجودہ پٹڑی کی بحالی کے حوالے سے ہے۔ پٹڑی کی بحالی کے لیے ابتدائی سروے اور اس سے متعلقہ تکنیکی کام کے اس منصوبے کی مالیت 1184803 ملین روپے ہے۔
بجٹ میں اس منصوبے کے لیے چھ ہزار ملین روپے رکھے گئے ہیں جبکہ اس کے لیے پانچ سو ملین کی غیر ملکی امداد متوقع ہے۔
کراچی تا لاہور اور پشاور 1872 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی مرمت و بحالی کے اس منصوبے کی کل لاگت نو ارب ڈالر سے زائد تھی جسے حال ہی میں کم کرکے سات ارب ڈالر کے قریب کردیا گیا ہے۔ اس کے لیے چین نرم شرائط پر قرضہ مہیا کرے گا، تاہم ابھی معاملہ گفت و شنید کے مرحلے میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاکستان کے لیے قرضے کے پروگرام کے برابر اس پراجیکٹ کے لیے اگر چین قرضہ دے بھی دے تو کیا پاکستان کی ناتواں معیشت اس کا بوجھ اٹھا پائے گی اور پھر کیا پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے پاکستان کو اس خطیر قرضے کی اجازت دیں گے؟
اگر سب ہو بھی جائے تو پاکستان جو پہلے ہی بین الاقوامی اداروں کو ماضی میں لیے گئے قرضوں پر خطیر سود دے رہا ہے۔ اس نئے قرضے کی اقساط کیسے ادا کرے گا؟
حکام کے مطابق گذشتہ سالوں میں منظور ہونے والے کئی منصوبوں کو اس سال پہلی مرتبہ رقم فراہم کی جائے گی۔ اگر اس سال بجٹ میں بتائی گئی ساری رقم بھی بغیر کسی کٹوتی کے سی پیک منصوبوں پر خرچ کر دی جائے تب بھی گذشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں یہ رقم بہت کم بنتی ہے۔
مثال کے طور پر سال 17-2016 میں سی پیک کے 38 منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کیے گئے تھے جبکہ ان کے لیے 129858 ملین روپے یا 129 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی۔ اس میں سے 86 ارب روپے پاکستان نے خرچ کرنا تھے جبکہ بقیہ 43 ارب روپے غیر ملکی امداد تھی۔
سال 21-2020 میں سی پیک منصوبوں کے لیے غیر ملکی یا چینی امداد میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
رواں سال پی ایس ڈی پی میں 3100 ملین روپے غیر ملکی امداد ہے جو کہ صرف تین منصوبوں کو دی جائے گی۔ ان میں حویلیاں تا تھاکوٹ سڑک، گوادر میں لینڈ فل اور ماحول کے پراجیکٹ اور ML-1 منصوبے کے ابتدائی کام پر خرچ کی جانی ہے۔
لیکن سی پیک محض شاہراہوں کا نام نہیں بلکہ سڑکیں اس کا ایک چھوٹا سا جزو ہیں۔
سی پیک کا اہم حصہ گوادر اور ملک کے دوسرے حصوں میں اقتصادی زونز کا قیام ہے۔ منصوبے کا ایک اور اہم جزو گوادر میگا سٹی پروجیکٹ اور گوادر میں جدید بین الاقوامی بندرگاہ کی تعمیر ہے۔
سی پیک چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔ چین قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی کرکے اپنی اشیا عالمی منڈی تک پہنچانا چاہتا ہے۔
شاہراہوں اور بندرگاہ کی تعمیرتو جاری ہے مگر اس کا زیادہ فائدہ چین کو ہوگا۔ اسے خنجراب سے گوادر تک سامان کی ترسیل میں آسانی ہوگی۔
پاکستان کے لیے اہم اور منافع بخش پراجیکٹ گوادر اور ملک کے دوسرے حصوں میں اکنامک زونز کا قیام ہے جس پر ابھی تک نہ ہونے کے برابر کام ہوا ہے۔
2013 میں شروع ہونے والے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر پاکستان میں شاہراہوں کے علاوہ اگر کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو وہ کرائے کے بجلی گھروں کے حوالے سے ہے۔
ملک بھر میں تیزی سے چینی کمپنیاں بجلی گھر تعمیر کر رہی ہیں۔ کئی تعمیر ہو چکے ہیں اور بقیہ جلد ہی مکمل ہو جائیں گے لیکن کرائے کے بجلی گھر ابھی تک پاکستان کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہوئے ہیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے شائع کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں دو چینی کمپنیوں کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ ان سے اتنی مہنگی قیمت پر بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ بقول صدر پاکستان 'ملک سے اجتماعی زیادتی کے مترادف ہے۔'
پاکستان کو مہنگی بجلی فروخت کر کے چینی کمپنیوں کو تو یقیناً بے تحاشا فائدہ ہوگا لیکن ملک میں بجلی کی قیمت بڑھ جائے گی۔
پاکستان میں پہلے ہی بجلی دنیا کے دوسرے ممالک سے مہنگی ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی اشیا مہنگی تیار ہوتی ہیں اور انہیں بین الاقوامی منڈی میں کوئی نہیں خریدتا۔ بجلی مزید مہنگی ہونے سے رہی سہی ایکسپورٹ بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
گوادر ایئرپورٹ جو کہ چین تعمیر کررہا ہے، بھی تاخیر کا شکار ہے۔ سات سال ہو چکے ہیں مگر گوادر میگا سٹی پراجیکٹ کا ابتدائی خاکہ ابھی تک نا مکمل ہے گو کہ اس حوالے سے چینی کمپنی نے اس سال ایک منصوبہ پیش کیا ہے مگر وہ ابھی تک کمپیوٹر انیمیشن سے زیادہ کچھ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کا جو خواب پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر دیکھا تھا آخر وہ کب پورا ہوگا۔ چین نے اگر 40 سال کے لیے گوادر بندرگاہ کرائے پر لی ہے تو وہ یقیناً اس پر تیزی سے کام کرے گا لیکن کیا پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے 40 سال کا انتظار کرنا پڑے گا؟
ہمیں سعودی عرب نے گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کی پیشکش کی اور وہ فوری رقم دینے کے لیے تیار تھے لیکن چین نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔
جرمنی اور جاپان نے بھی کئی بار منصوبے میں شامل ہونے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں لیکن انہیں ہر بار ناراض کیا گیا۔
سی پیک پر کام کرنے والے ایک سابق افسر بتاتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کرونا کی وجہ سے ملک انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہے، امیر ممالک کو اس میں شامل کرکے فوری رقم حاصل کی جا سکتی ہے جس سے پاکستان اپنے لیے اقتصادی اہمیت کے منصوبوں پر کام شروع کرسکتا ہے۔
حال ہی میں بنائی جانے والی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ سے جب ان نکات پر ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ وہ بہت مصروف ہیں۔ کئی روز گزرنے کے باوجود تاحال ان کی یا ان کے ادارے کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ سی پیک منصوبے کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے کے حوالے سے کافی کام ہو چکا ہے اور جلد ہی سات اعشاریہ دو ارب ڈالر مالیت کے ML-1 اور 3.5 ارب ڈالر کے دو پانی سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر اور کئی دوسرے منصوبے بشمول اقتصادی زونز آرہے ہیں۔
ان کی اس ٹویٹ نے ایک نئی بحث کو جنم دیا کہ اگر یہ رقم خرچ کی جائے گی تو اس کا پاکستان کے نئے سال کے بجٹ میں ذکر کیوں نہیں۔ یہاں تک کہ عاصم سلیم باجوہ صاحب کو اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرنی پڑی۔
https://www.independenturdu.com/node/39686